قیامت تک خواتین کے لیے مشعل راہ
ابھی آپ کم عمر ہی تھیں کہ والدین کا انتقال ہو گیا۔ بصرہ میں ایک زبر دست قحط پڑ گیا۔ جس میں آپ کی تینوں بڑی بہنیں آپ سے جدا ہو گئیں۔ آپ بھی بصرہ سے چل کھڑ ی ہوئیں۔ آپ کو لا وارث سمجھ کر ایک بردہ فروش نے پکڑ لیا اور فروخت کر دیا۔ آپ کا آقا آپ سے پوری مشقت لیتا۔ ایک روز آپ کسی کام کو گئی ہوئی تھیں کہ راستہ میںایک نامحرم کی بری نظر دیکھ کر آپ بھا گ کھڑی ہوئیں۔ گر پڑیں، ہاتھ ٹوٹ گیا۔ آپ سجدہ میں گر پڑیں اور بچشم گریاں دعا کی یااللہ ! غر یب و غلا م ہوں۔ بے کس و بے چارہ ہوں۔ دست شکستہ ہوں۔ بے ماں با پ کی لڑکی ہوں۔ پھر بھی میں نہ کسی امر کی شاکی ہوں اور نہ پرواہ کرتی ہوں۔ مجھے تو صرف تیری خوشنودی مقصود ہے۔ اور اتنی استدعا ہے کہ مجھے یہ بتا دے کہ تو مجھ سے را ضی ہے یا نہیں۔ اسی وقت غیب سے آواز آئی کہ را بعہ ہم تجھ سے راضی ہیں اور قیا مت میں ہم تجھے وہ مر تبہ عطا کر یں گے کہ ملائکہ مقربین بھی اس پر نا ز کریں گے۔
سجدہ سے سر اٹھا کر آپ آقا کے پا س پہنچیں۔ جس کی خدمات آپ پوری وفا داری کے ساتھ انجام دیتی تھیں۔ دن بھر اس کی خدمت کر تیں اور رات بھر عبادت و نما ز میں مصروف رہتیں۔ ایک شب آقا کی آنکھ کھلی تو دیکھتا ہے کہ حضرت رابعہ رحمتہ اللہ علیہ تضرع و زاری میں مصروف ہیں اور کہہ رہی ہیں رب قدیر! میری آنکھوں کی ٹھنڈک تو تیری عبادت ہی ہے مگر مجبو ر ہوں کہ تو نے مجھے ایک بندہ کا خادم بنا دیا ہے۔ اسی لئے تیری جنا ب میں دیر سے حاضر ہو تی ہوں۔ اس نے دیکھا کہ آپ کے سر پر ایک نورانی قندیل آویزاں ہے۔ جس کی بصارت افروز شعا عوں سے تما م کمرہ جگمگا رہا ہے۔ صبح ہوتے ہی آقا کے پاﺅں پر گرا اور آزاد کر دیا۔
حکمت کی با تیں
ایک مر تبہ آپ کی محفل میں حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت مالک بن دینا رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت شفیق بلخی رحمتہ اللہ علیہ موجود تھے۔ ان بزرگوں میں حقیقت صدق پر گفتگو شرو ع ہو گئی۔ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا : ” جو شخص اپنے مالک کی ما ر پر صبرنہ کر ے وہ اپنے دعوے میں صادق نہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا اس میں خود پسندی کی بو ہے۔شفیق بلخی رحمتہ اللہ علیہ بو لے۔ ” جو اپنے مالک کے رحم پر شکر نہ کرے وہ سچا نہیں “ فرمایا اس سے بھی بلند ہو نا چاہئے۔ مالک بن دینار رحمتہ اللہ علیہ کہنے لگے کہ۔ ” جسے دوست سے زخم کھا کر کوئی ندامت نہ ہو وہ سچائی میں نہیں۔“ فرمایا اس سے بھی معیا ر بلند ہونا چاہئے۔ سب نے فرمایا تو پھر آپ ہی فرما دیجئے بولیں۔ ” جو شخص مشاہدہ مطلوب میں اپنے درد و زخم کو فرامو ش نہ کرے وہ اپنے دعوے میں سچا نہیں۔ یہ کوئی بڑی با ت بھی نہیں کہ زنان مصر حضرت یو سف علیہ السلام کے مشاہد ہ جمال میں اپنے زخموں کے درد کو بھی بھول گئی تھیں۔ پھر اگرمشاہدہ الہٰی میں کوئی کسرنہ رہے تو یہ کوئی تعجب انگیز امر نہیں۔
آپ کی علالت کی اطلا ع پا کر عبدالواحد عا صی رحمتہ اللہ علیہ او ر سفیا ن رحمتہ اللہ علیہ عیادت کو گئے۔ اتنی ہیبت تھی کہ دونوں خامو ش رہے اور زبان سے کچھ نہ نکلا آخر آپ کے فرمانے پر سفیان رحمتہ اللہ علیہ نے کہا اپنی صحت کے لیے دعا کیجئے۔ فرمایا جا نتے ہوکہ علا لت اس کے حکم کے بغیر ممکن نہیں اور پھر ایسا کہتے ہو۔ میں اس کی مرضی کیخلاف اس سے کیوں درخواست کر سکتی ہوں؟ کہ دوست کی مرضی کے خلا ف کر نا درست نہیں۔ پو چھا کسی چیز کی خوا ہش بھی ہے فرمایا۔ بار ہ بر س سے ترکی خرمے کھانے کو دل چاہتا ہے،جو بہت ارزاں فروخت ہو تے ہیں۔ لیکن میں نے نہیں کھائے کہ کنیز ہوں اور کنیز کی کوئی آرزو نہیں ہو سکتی۔ وہ نہ چاہے اورمیں چاہوں تو یہ اصلا کفر ہو گا۔ یہ عا شقانہ شان حضرت را بعہ رحمتہ اللہ علیہ ہی کا حصہ تھی۔ واقعی عشق صادق، مر ضی محبوب ہی میں اپنی خوشی تلا ش کرتا ہے۔
ارشادات
ایک دفعہ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ آپ شریعت کے مطا بق شادی کرلیں۔ فرمایا نکا ح و شا دی اس کے لیے ہے جس کا کوئی وجو د ہو۔ یہاں نہ میرا کوئی وجو دہے اور نہ میں اپنی آپ مالک ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی مملوک ہوں۔ یہ سوال اسی سے کیجئے۔ پو چھا اللہ تعالیٰ کو کس طر ح جا نتی ؟ فرمایا چون و چرا سے تم جانتے ہو گے میں تو بے چون و چرا جانتی ہوں۔ ایک دفعہ کچھ اور لو گوں نے بھی آپ سے کہا کہ آپ شادی کر لیجئے۔ فرمایا۔ اگر تین فکر وں سے مجھے بے فکر کر دیجئے تو میں ضرور شادی کر لوں گی۔ اولاً۔ آیا میں دنیا سے اپنا ایمان سلامت لے جا ﺅں گی۔ ثانیا بروز حشر میرے دائیں ہا تھ میں ہی نامہ اعمال دیا جائے گا۔ ثالثاً قیا مت کے روز جب لو گ دائیں جانب سے بہشت میں اور بائیں جانب سے دوزخ میں پہنچائے جائیں گے تو مجھے کس جا نب سے پہنچایا جائے گا۔ لو گوں نے کہا کہ اس کا علم تو خداہی کو ہے۔ فرمایا تو پھر جسے اتنے عظیم افکا ر و اغمام پیش ہوں وہ بھلا کیا شوہر کر سکتی ہے۔ایک دفعہ آغاز مو سم بہا رہی میں آپ معتکف ہو گئیں۔ خادمہ نے عرض کیا مو سم بہت لطف افروز ہے۔با ہر آ کر صانع حقیقی کی صنعت کو ہی ملا حظہ فرمائیے۔ جوا ب دیا۔ میرا کام تو صانع کو دیکھنا ہے نہ کہ صنعت کو۔ آپ نے ایک مر تبہ حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کو ایک سوئی۔ ایک بال اور ایک مو م کا ٹکڑا بھیجا اور کہلوا دیا کہ موم کی طرح جہا ن کو روشن اور منور رکھو اور خود کو جلا ﺅ۔ سو ئی کی طر ح ہمیشہ اپنی جگہ رہو اور کام کرتے جاﺅ۔ اور پھر بال کی طر ح سیدھے رہو تا کہ تمہارے سب کام درست ہوں۔ لو گوں آنکھوں۔ کا نوں اور زبانوں کی طرف سے منزل ربانی تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہا تھ پا ﺅں سے کوئی کا م چل سکتا ہے یہ معاملہ صرف دل کے ساتھ ہے۔ کو شش یہ کرو کہ دل بیدار ہو جائے اور جب یہ بیدا ر ہوگیا۔ پھر کسی کی بھی حاجت نہیں۔ دل بیداروہی ہے جو حق میں گم ہوجائے۔ اور جو اس میں گم ہو گیا اسے پھر کسی یا ر کی ضرورت نہیں کہ یہی درجہ فنافی اللہ ہے۔۔۔ فرمایا عورت وہ ہے جو خدا سے دل طلب کرے اور جب دل مل جائے تو دل کو اسے واپس دے دے کہ وہ اسے حفاظت سے رکھے۔ حضرت صا لح قزوینی کا یہ قول سن کر جو دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اس کے لیے ضرور کھلتا ہے۔ فرمایا کب تک آواز دیتا رہے۔کھولے گا کون ؟ بند کس نے کیا ہے کہ پھر کھولنے کی ضرورت لا حق ہو۔ صالح نے جو یہ سنا تو حیرت زدہ ہو کر فرمایا۔ کہ مجھے مر دکی جہالت اور عورت کی دانائی پر تعجب ہے۔۔۔ ایک شخص روروکر ہائے غم ہا ئے غم پکار رہا تھا۔ آپ نے سن کر فرمایا۔ ” ہائے بے غمی بے غمی “ کہہ۔ اگر غمگین ہوتا تو دم مارنے کی بھی ہمت نہ ہوتی۔ کچھ بزرگ حاضر خدمت ہوئے۔ آپ نے اُن سے پو چھا کہ تم اللہ کی عبادت کس غرض سے کر تے ہو۔ ایک نے کہا آتش دوزخ کے خوف سے۔ دوسرے نے کہا جنت کا آرام پیش نظر ہے فرمایا یہ خوف و طمع کی عبادت تو بہت بری ہے۔ پو چھا پھر آپ کس لیے عبادت کر تی ہیں۔ کیا آپ کو کوئی طمع نہیں؟ فرمایا پہلے ہمسائے کی تلا ش ضروری ہے پھر گھر کی تلا ش ہونی چاہئے۔ اس لیے دوزخ و جنت کا عدم وجود برابر ہے۔ اگر جنت و دوزخ نہ ہوتیں تو کیا اس کی عبادت ہی نہ کی جا تی۔ کیا اسے اتنا بھی استحقاق نہیں تھا کہ اس کی عبادت اسی کے لیے کی جائے۔ سب خاموش ہوگئے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں